Fatawa


انواریہ دار الافتاء
الاستفتاء:# 1


السؤال
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
أحسن الله إليك الشيخ الدكتور
 
وجدت هذا الحديث
 بينا أنا نائم أتاني رجلان فأخذا بضبعي ، فأتيا بي جبلا وعرا ، فقالا : اصعد . فقلت : إني لا أطيقه . فقالا : إنا سنسهله لك . فصعدت حتى إذا كنت في سواء الجبل ، فإذا أنا بأصوات شديدة ، فقلت : ما هذه الأصوات ؟ قالوا : هذا عواء أهل النار . ثم انطلق بي ، فإذا أنا بقوم معلقين بعراقيبهم ، مشققة أشداقهم تسيل أشداقهم دما . قال : قلت : من هؤلاء ؟ قيل : هؤلاء الذين يفطرون قبل تحلة صومهم . فقال : خابت اليهود والنصارى فقال سليم : ما أدري أسمعه أبو أمامة من رسول الله أم شيء من رأيه ثم انطلق بي ، فإذا أنا بقوم أشد شيء انتفاخا ، وأنتنه ريحا ، وأسوأه منظرا . فقلت : من هؤلاء ؟ فقال : هؤلاء قتلى الكفار . ثم انطلق بي فإذا أنا بقوم أشدشيء انتفاخا ، وأنتنه ريحا ، كأن ريحهم المراحيض . قلت : من هؤلاء ؟ قال : هؤلاء الزانون والزواني . ثم انطلق بي فإذا أنا بنساء تنهش ثديهن الحيات . قلت : ما بال هؤلاء ؟ قيل : هؤلاء يمنعن أولادهن ألبانهن . ثم انطلق بي فإذا أنا بغلمان يلعبون بين نهرين . قلت : من هؤلاء ؟ قيل : هؤلاء ذراري المؤمنين . ثم شرف بي شرفا ، فإذا أنا بثلاثة يشربون من خمر لهم . قلت : من هؤلاء ؟ قال : هؤلاء جعفر ، وزيد ، وابن رواحة . ثم شرف بي شرفا آخر ، فإذا أنا بنفر ثلاثة . قلت : من هؤلاء ؟ قال : هذا إبراهيم ، وموسى ، وعيسى ، وهم ينتظرونك
الراوي: أبو أمامة الباهلي المحدث: الألباني - المصدر: صحيح الترغيب - الصفحة أو الرقم: 2393
خلاصة حكم المحدث: صحيح
ما معنى ما لونته بالأحمر لانه استشكل على كثير من النساء !!
خصوصا من منعت طفلها الحليب في صغره
وفقكم الله؟

الجواب :
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
وجزاك الله خيرا .

الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین
رب اغفر وارحم وانت خیر الراحمین

الحديث رواه ابن خزيمة وابن حبان والحاكم ، وصححه ، وصححه الذهبي على شرط مسلم .
وصححه الألباني والأرنؤوط والأعظَمي .

والذي يظهر أن المقصود بـ (يمنعن أولادهن ألبانهن) اللواتي يمنعن أولادَهن مِن الرضاعة في حال ووقت حاجتهم إليهن مع عدم وُجود بديل ؛ لأنه لا يجب على المرأة أن تُرضِع ولدها إلاّ في حال عدم وُجود غيرها ، أو عدم قبوله لِثَدي غيرها .

وسبق بيان ذلك هنا :

ومَن امتنعت عن إرضاع ولدها مع عدم وُجود غيرها ، أو في حال عدم قبوله لثدي غيرها ، وتراه يبكي ويتضوّر جوعا ، ثم لا تُرضعه ، فهذه قاسية قَلْب ، وقد قال الله: فَوَيْلٌ لِلْقَاسِيَةِ قُلُوبُهُمْ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ
مالك بن دينار: ما ضُرِب عَبد بِعُقوبة أعظم مِن قَسوة قَلْب .
والله تعالى أعلم

كتبه
المتخصص فی الفقہ    
عاجز ابو الانوار ڈاکٹر ذوالفقار علی قریشی غَفَرَہ، اللّٰہُ تعالی
7محرم الحرام1435ھ بمطابق12نومبر 2013ء
دار الافتاء انواریہ لیاقت آباد کراتشی







انواریہ دار الافتاء
الاستفتاء:# 1


Hazrat Sb.
A person I know him by face, a wooden stair case hang with on shoulder after Mugrib prayer till night to connect illegal electric connection (direct from KE poll) to shops/houses.  
Here are my two questions regarding this activities
First, A person who is provided/service illegal connection to others, income is Hilal or not.
Second, Receiver/user take illegal connection by said person, this activity is Hilal or not.      
thanks early res-ponce


answers Your questions
Dear Moula Baksh,
Here is the fatwa of your two questions:

1) That person's or any other person's income is illicit (na jaiz) who is providing illegal electricity connection to others, if he is K-Electrics's work person and is providing the connection to anyone in their meters with the permission of KE then his income is halal.

2) If the service receiver is having electricity connection in meter then its permissible (jaiz) else it will be considered as robbery.

Jazakallah for your questions.

Regards,
Dr. Zulfiqar Ali Qureshi






انواریہ دار الافتاء
الاستفتاء:# 2
from:Moula Baksh moulabakshessani86@gmail.com
to:zulfiqar.quraishi320@gmail.com
date:Aug 2, 2019, 8:11 AM
subject:A Public Message
my question:
Recently Rained in Karachi, casualty of human being due to negligence of open electric wiring, such as like Kaunda
Here, you are requested to highlight in view of Hades, in Friday congregation positively
Thanks, your attention in this regards, a highly appreciated
Moula Baksh Essani

Dear Moula Baksh,
Thank you for your email. Your advice is highly appreciated.

I have many times highlighted the topic of Kunda and its negativity towards society. But, in future seeing the environment I'll again congregate this topic on Friday.

Jazakallah for your precious advice.

Regards,
Dr. Zulfiqar Ali Qureshi

 

انواریہ دار الافتاء
الاستفتاء:# 17
            کیا فرماتے ہیں علما ء کرام ومفتیان کرام اس مسئلہ کے بارئے میں کہ کونڈے کیا ہیں؟شریعت میں اس کی کیا حقیقت اور ان کوکرنا کیسا؟بدمذہب فرقوں کی طرف سے اس کے خلاف پروپیگنڈا کرنا کیسا ؟اور ان کا یہ کہنا کہ کونڈے امیر معاویہ کے مرنے کی خوشی میں کئے جاتے ہیںکیسا؟کیا ٢٢رجب امعاویہ کے وصال کا دن ہے ؟ بینوا وتوجروا                    سائل :عثمان

الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین
رب اغفر وارحم وانت خیر الراحمین

الجواب:
مسلمانوں کی اکثریت رجب المرجب کے مہینے میں حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللّٰہ علیہکے ایصالِ ثواب کا اہتمام کرتی ہے ۔جسے عام لوگ ''کونڈوں کی نیاز ''کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ قرآن پاک ،احادیث مبارکہ ،اجماع امت اورشریعت کے چاروں امام سب اس بات پر متفق ہیں کہ ایصال ثواب بالکل جائز اورمستحب و مستحسن ہے۔۔۔۔۔۔کیونکہ ۔۔۔۔۔۔ان کے ناجائز ہونے کی کوئی دلیل ہی نہیں فَمَنْ ادّعٰی ذلک فعلیہ البیان(والبرھان)(البحر الرائق شرح کنز الدقائق،١/١٠٧،دار المعرفہ بیروت)اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جس امر کے ناجائز ہونے کا کوئی شرعی ثبوت نہ ہو بدمذہب بھی مانتے ہیں کہ وہ جائز ہوتا ہے پھر جب کونڈوں کے ناجائز ہونے کا کوئی شرعی ثبوت نہیں تو وہ بھی جائز ہوئے وہو المقصود
    اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ شرعا علیحدہ دلیل کی ضرورت کسی امر کے جواز کے لئے نہیں بلکہ اس کے عدم جواز کے لئے ہوتی ہے پس جو کونڈوں کے ناجائز ہونے کا مدعی ہو ان کی ممانعت کی واضح شرعی دلیل کا پیش کرنا اسی کی زمہ داری ہے۔۔۔۔۔۔۔''کونڈے کرنا'' ایصال ثواب کا ایک طریقہ ہے، بسا اوقات لوگ اپنی سہولت کی خاطر ایصالِ ثواب کے لئے دن وغیرہ مقرر کرلیتے ہیں مگر اسے شریعت کا مقررکردہ دن نہیں سمجھتے ،اسی لئے سوئم اور چالیسویں وغیرہ میں کچھ دن آگے پیچھے کر لیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔یہی معاملہ '' کونڈوں کی نیاز ''کا ہے کہ عموما مسلمان رجب المرجب کی 22 تاریخ سے مہینے کے آخربلکہ بعد تک اس کا اہتمام کرتے رہتے ہیں اور بعض22رجب سے پہلے بھی کرلیتے ہیں اوراس کے جائز ہونے پر اہلسنّت وجماعت کے تمام علمائے کرام رحمہ اللہ کا اجماع ہے۔۔۔۔۔۔دلائل وبراہین کی یہاں گنجائش نہیں مگرکونڈوں کے بارے میں انبار دلائل دیکھنا ہوں توحضرت علامہ مفتی عبد المجید سعیدی کی کتاب''الجواب الاظہر'' المعروف '' کونڈوں کی شرعی حیثیت ''یا میری زیرطبع'' تفسیر انواریہ ''کا مطالعہ یا وزٹ کیجئے doctorzulfiqar.blogspot.com ۔
بدمذہبوں کی جانب سے جاری کردہ ''کونڈوں کی حقیقت '' نامی '' فتویٰ''پڑھ کر انتہائی افسوس اور دکھ ہوا اوربڑی حیرت ہوئی کہ خود کو مفتی کہلانے والوں نے کس قدر جھوٹ اوردھوکہ دہی سے کام لیااور ایک جائز کام کو ناجائز قراردینے کی ناکام کوشش کی ہے۔سب سے پہلے تو وہی بدعت کا پرانا رونارویاگیا۔۔۔۔۔۔جبکہ ایصالِ ثواب کو بدعت کہنا خود ایک گمراہی ہے۔دوسرے نمبر پرخاص ''کونڈوں کی نیاز''کا حضورنبی کریم ؐ،حضرات خلفائے راشدین اورصحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم سے ثبوت مانگنا سراسر جہالت کی دلیل ہے۔ورنہ بتائیں :کس صحابی نے'' نوٹوں'' سے زکوۃ دی؟ ؟؟اورکس صحابی نے ''ہوائی جہاز'' پر سفرِ حج کیا؟؟؟نیزیوم صدیق اکبر اور یوم فاروق اعظم پر ریلیاں نکالنے اور سرکاری سطح پر چھٹی کامطالبہ کرنے اوران ایام کومنانے کا قرآن وحدیث اور صحابہ کرام سے ثبوت پیش کریںجو کہ قیامت تک نہ ہوسکے گا۔
اور یہ کہنا کہ'' 22رجب حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کا وصال مبارک ہے اوراہلسنّت ان کے وصال کی خوشی میں نیاز کرتے ہیں۔'' اس کے جواب میں یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ ''جھوٹوں پراللّٰہ کی لعنت۔''اوریہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ انبیاء واولیاء سے غیب کی نفی کرنے والوں کو ہماری پوشیدہ نیت کا پتا چل جاتاہے۔۔۔۔۔۔ بہرحال کسی بھی مسلمان کی یہ نیت نہیں ہوتی بلکہ صرف اور صرف ایصالِ ثواب کی نیت ہوتی ہے اورہم اہلسنّت اپنی اس نیت کا بابانگ دہل اعلان بھی کرتے رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔اس وضاحت وصراحت کے بعدبھی یہ کذب بیانی کرناشیطانی کام نہیں تو اور کیاہے۔
مناسب ہے کہ اب اس بات کی قلعی بھی کھول دی جائے کہ'' 22 رجب حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کا یومِ وصال ہے۔'' جیساکہ نام نہاد مفتیوں نے ''تاریخ طبری'' کے حوالے سے لکھا ہے ،حالانکہ تاریخ طبری میں یہ لکھا ہے کہ '' بعض کے نزدیک یکم رجب اوربعض کے نزدیک 15رجب اور بعض کے نزدیک رجب ختم ہونے میں آٹھ دن باقی تھے(یہ 21رجب بھی ہوسکتی ہے)کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کا وصال ہوا۔ (تاریخ طبری،ج3،ص261)تاریخ طبری کے علاوہ دیگرکتب میں درج ذیل اقوال لکھے ہیں:(١)تاریخ ابن خلدوں،ج2،ص502( مطبوعہ:نفیس اکیڈمی کراچی):''آپ کا وصال 15رجب کوہوا اوربعض کے نزدیک جمادی الثانی میں ہوا۔'' (٢) طبقات ابن سعد،ج7،ص406( مطبوعہ: بیروت ،لبنان ) میں لکھاہے:''وصال مبارک 15رجب کو ہوا۔''(٣) البدایۃ والنہایۃ،ج8،ص152( مطبوعہ: بیروت) میں ہے:''ایک گروہِ علماء کے نزدیک آپ کا وصال 15رجب کوہوا،بعض کے نزدیک4 رجب ،بعض کے نزدیک یکم رجب اور بعض کے نزدیک رجب ختم ہونے میں آٹھ دن باقی تھے ۔''(٤)تاریخ ابن عساکر ،ج59،ص60 پر بھی 15 رجب اور22رجب کے اقوال ہیں ۔نیز(٥)اسدالغابہ میں بھی 15رجب لکھاہے اور کہا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ کاوصال22 رجب کو ہوا۔''
بھائی اب آپ کو اندازہ ہوگیاہوگا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ کی تاریخِ وصال میں اس قدر اختلاف اور کئی اقوال ہونے کے باوجودصرف 22 تاریخ کو خاص کرکے مسلمانانِ اہلسنّت کو دشنام دینا اور انہیں ایصالِ ثواب سے روکناامت میں فتنہ انگیزی کے سوا کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔اور یہ روزِروشن کی طرح واضح ہوگیا کہ یہ لوگ صرف ایصالِ ثواب سے روکنا چاہتے ہیں ورنہ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کس کا وصال کب ہوا؟۔۔۔۔۔۔اگر یہ واقعی ایصال ثواب سے روکنا نہیںچاہتے بلکہ تاریخ وصال کی غلطی درست کروانا چاہتے ہیں توپھرامیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ اورحضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللّٰہ علیہ کے لئے ایصالِ ثواب کا اہتما م کیوں نہیں کرتے؟؟؟ ۔۔۔۔۔۔ہاں !ہاں !اگر سچے ہیں تو حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللّٰہ علیہکے وصال کی جو تاریخ ان کے نزدیک درست ہے اسی کو نیازوفاتحہ کا اہتمام کرلیا کریں۔بھائی! ایصال ثواب کے دشمنوں کی باتوں پر کان مت دھرئیے بلکہ اپنے بزرگوں اور مرحومین کو خوب خوب ایصالِ ثواب کیجئے ۔ اللہ ورسولہ اعلم

ک
ـتـبـہ        
متخصص فی الفقہ         
ابو الانوار ڈاکٹر ذوالفقار علی قریشی غَفَرَہ، اللّٰہُ تعالی    
27رجب المرجب1434ھ؁ بمطابق6جون 2013؁
دار الافتاء انواریہ لیاقت آبادنمبر٨ کراچی    

        



انواریہ دار الافتاء
الاستفتاء:# 18

رجب کے کونڈے جائز ہیں یا نہیں؟ برائے مہربانی تفصیلی جواب مرحمت فرمائیں۔ بینوا وتوجروا 
       سائل :عبد الرحمن
الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سید المرسلین
رب اغفر وارحم وانت خیر الراحمین
الجواب:
22 رجب کو جو کونڈے پکائے اور بھرے جاتے ہیں ان کی بعض باتیں درست ہیں اور بعض غلط۔ شرعی مسئلہ یہ ہے کہ کوئی نیک کام کر کے آپ اس کا ثواب کسی زندہ یا مرحوم مسلمان کو پہنچا سکتے ہیں۔ فقہائے اسلام فرماتے ہیں:الاصل فی ہذا الاباب ان الانسان لہ ان یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلوۃ او صوما او صدقہ او غیرہا عند اہل السنہ والجماعہ، لما روی عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہ ضحی بکبشین املحین احدہما عن نفسہ و الاخر عن امتہ ممن اقربو حدانیۃ اللہ تعالیٰ.(فتح القدیر، ٣/ ٦٥)اس مسئلہ کی اصل یہ ہے کہ انسان اپنے نیک عمل کا ثواب نماز ہو، روزہ ہو، صدقہ ہو یا کچھ اور، اہل سنت و جماعت کے نزدیک دوسرے کو پہنچا سکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے کہ آپ نے دو چتکبر مینڈھے قربانی دیئے۔ ایک اپنی طرف سے اور دوسرا اپنی مسلمان امت کی طرف سے۔
ایصال ثواب کے ثبوت میں بے شمار دلائل ہیں مگر اختصار کے پیش نظر ایک حوالے پر اکتفا کرتا ہوں۔۔۔۔۔۔ جبکہ ۔۔۔۔۔۔اس کے ناجائز ہونے کی کوئی دلیل ہی نہیں فَمَنْ ادّعٰی ذلک فعلیہ البیان(والبرھان)(البحر الرائق شرح کنز الدقائق،١/١٠٧،دار المعرفہ بیروت)اس دلیل کا خلاصہ یہ ہے کہ جس امر کے ناجائز ہونے کا کوئی شرعی ثبوت نہ ہو تو وہ جائز ہوتا ہے پھر جب کونڈوں کے ناجائز ہونے کا کوئی شرعی ثبوت نہیں تو وہ بھی جائز ہوئے وہو المقصود
 کونڈے بھی ایک صدقہ ہے جس کا ثواب امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کو پہنچایا جاتا ہے لہذا کار ثواب ہے۔ ہاں ہمارے جہلاء نے جو بیہودہ قیدیں اپنی طرف سے لگا رکھی ہیں وہ درست نہیں۔ مثلاً اس موقع پر ایک چھوٹی کتاب بی بی فاطمہ کا معجزہ یا کونڈوں کے متعلق عجیب و غریب حکایتیں جو پڑھی اور بیان کی جاتی ہیں سب غلط اور جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ اس سے پرہیز کرنا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔عوام میں یہ مشہور ہے کہ کونڈے گھرے سے باہر نہ نکالے جائیں، اس جگہ کھائیں۔ یہ بھی غلط ہے کہ صرف حلوہ پوری اور کونڈوں کو ضروری سمجھیں تو یہ بھی غلط ہے۔ خواہ حلوہ پوری ہو یا کچھ اور، یونہی کونڈوں میں رکھیں یا کسی برتن میں سب جائز ہے۔ جو چاہے کھائے۔ مسلم، غیر مسلم سب کو دیں، ثواب مل جائے گا۔
بعض لوگ کہتے ہیں اس دن 22 رجب کو امام جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی وفات نہیں ہوئی بلکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی ہے اور شیعہ لوگ دراصل امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر خوشی مناتے ہیں۔ لیکن یہ الزام چند وجوہ سے باطل ہے:۔۔۔۔۔۔اولاً ۔۔۔۔۔۔اس الزام کا شرعی ثبوت کیا ہے؟ محض الزام لگانا کافی نہیں۔۔۔۔۔۔دوم۔۔۔۔۔۔ کسی کے مرنے پر کوئی مخالف حلوہ پوری پکا کر ختم نہیں دلواتا اور ایصال ثواب نہیں کرتا۔ پھر شیعہ کیا پاگل ہیں کہ اپنے مخالف کا ختم دلاتے اور ایصال ثواب کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔سوم۔۔۔۔۔۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تقریبا چالیس سال تک حکومت کر کے، آسودگی کی زندگی بسر کر کے، اپنے اہل و عیال میں طبعی موت کی صورت میں فوت ہوئے۔ اس میں دشمن کی خوشی کی کیا بات ہو گی؟ اس پر مخالفین کا بغلیں بجانا چہ معنی دارد؟ کیا کبھی انہوں نے معاذ اللہ نہ مرنے کا دعویٰ کیا تھا کہ ان کی وفات پر خوشیاں منائی جائیں۔۔۔۔۔۔چہارم۔۔۔۔۔۔ ہم نے کسی شیعہ کو کبھی خوشیاں مناتے نہیں دیکھا، ختم دلانا اور بات ہے۔

ک
ـتـبـہ        
متخصص فی الفقہ         
ابو الانوار ڈاکٹر ذوالفقار علی قریشی غَفَرَہ، اللّٰہُ تعالی    
28رجب المرجب1433ھ؁ بمطابق20جون 2012ء؁
دار الافتاء انواریہ لیاقت آبادنمبر٨ کراچی









دار الافتاءانواریہ
الاستفتاء#:32
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ ہم چار بھائی اور دو بہنیں ہیں ہمارے والدین  مرحومین نے ایک پلاٹ نوآباد  میں چھوڑا ہے اور 23لاکھ روپے نقد اور 25لاکھ روپے کی مالیت کا سونا چھوڑا ہےاب آپ سے یہ رہنمائی چاہئے کہ اس ترکہ کی تقسیم ہم چار بھائی اور دو بہنوں میں کس طرح ہو گئی؟ اس بارے میں تفصیل سے بیان فرما دیجئے۔
سائل:خدیجہ بنت محمد حسین
الجواب:
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین
رب اغفروارحم وانت خیر الراحمین وافوض امری الی اللہ
ان اللہ بصیر بالعباد
 اس بارے میں تفصیل سے بیان تو جب ہوگا جب تفصیلی سوال ہو آپ نے جو کچھ سوال میں  پوچھا ہے فقط اس کا جواب حاضر ہے:آپ نے فقط بھائی اور بہنوں کا ذکر کیا ہے،شریعت نے بھائی کا حصہ بہن سے دوگنا رکھا ہے۔وَ اِنۡ کَانُوۡۤا اِخْوَۃً رِّجَالًا وَّ نِسَآءً فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ (النساء:76)ترجمہ : اور اگر بھائی بہن ہوں مرد بھی اور عورتیں بھی تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر. لہٰذا آپ کے پلاٹ کی جو قیمت ہے وہ اور 23لاکھ روپے نقدی اور 25لاکھ سونے کی قیمت،ان سب کو پلس کر لیجئے۔
            اب آپ پلس کی گئی رقم کو10 حصوں میں تقسیم کر دیجئے اس کے بعدہر بھائی کو دو  دو  حصے دیدیجئے اور ہر بہن کو ایک ایک حصہ دےدیجئے بآسانی آپ کی وراثت تقسیم ہو جائے گی۔
      مثلا:آپ کی کل رقم پلس کے بعد ایک کروڑ(10000000) بنتی ہے تو سب سے پہلے آپ اس کو 10 حصوں میں تقسیم کریں :            10000000 ÷ 10 = فی حصہ   1000000    دس لاکھ بنتی ہے
ہر ایک بھائی کا حصہ :2000000  بیس لاکھ                  ہرایک بہن کا حصہ   :1000000 دس لاکھ

كتبه                  المتخصص فی الفقہ
   عاجز ابو الانوار ڈاکٹر ذوالفقار علی قریشی غَفَرَہ، اللّٰہُ تعالی
27جماد الاول1439ھ بمطابق14فروری 2018ء
                 دار الافتاء انواریہ جوڑیا بازار کراچی







دار الافتاءانواریہ
الاستفتاء#:33
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیاں کرام اس مسئلہ میں کہ مرنے والے کےتین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں اور اس کے علاوہ کوئی وارث موجود نہیں ہے۔مرنے والاجو کچھ چھوڑ کر گیا اس کی کل مالیت اٹھتر لاکھ(7800000)روپے ہے۔برائے مہربانی آپ سے یہ رہنمائی چاہئے کہ اس ترکہ کی تقسیم ان پانچوں میں قرآن وحدیث کی روشنی میں کس طرح ہو گئی؟ کس کو کتنا فیصد حصہ ملے گا اس بارے میں تفصیل سے تحریری جواب ارشاد فرما دیجئے۔
سائل:عبدا لقادر کراچی
الجواب:
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین
رب اغفروارحم وانت خیر الراحمین وافوض امری الی اللہ
ان اللہ بصیر بالعباد
 اس بارے میں تفصیل سے جواب حاضر ہے:آپ نے چونکہ وارثوں میں فقط بیٹے  اوربیٹیوں کا ذکر کیا ہے جبکہ دوسرے وارثوں کے نہ ہونے کا ۔لہٰذا  اس میں شریعت نے بیٹے کا حصہ بیٹی سے دوگنا رکھا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قران میں ارشاد فرماتا ہے:وَ اِنۡ کَانُوۡۤا اِخْوَۃً رِّجَالًا وَّ نِسَآءً فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ(النساء:76)ترجمۂ انوارالبرھان:اوراگراسطرح بھائی بہن ہوں کہ مرد بھی اور عورتیں بھی تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہےء. لہٰذا بیٹے کو دوگنا اور بیٹی کو ایک گنا حصہ ملے گا۔
اب چونکہ آپ کی رقم اٹھترلاکھ(7800000) روپے ہے اس لئے اس کو 8 حصوں میں تقسیم کر دیجئے اس کے بعدہر بیٹے کو دو  دو  حصے دیدیجئے اور ہر بہن کو ایک ایک حصہ دےدیجئے بآسانی آپ کی وراثت تقسیم ہو جائے گی۔
            مثلا:آپ کی کل رقم اٹھترلاکھ(7800000) ہے تو سب سے پہلے آپ اس کو 8 حصوں میں تقسیم کریں :   7800000 ÷ 10 = فی حصہ   975000    یعنی نولاکھ پچہتر ہزار روپے بنتی ہے۔
ہر ایک بھائی کا حصہ        :1950000  اُنیس لاکھ پچاس ہزار                 ہرایک بہن کا حصہ    :975000 نولاکھ پچہتر ہزار

كتبه             
  المتخصص فی الفقہ
عاجز ابو الانوار ڈاکٹر ذوالفقار علی قریشی غَفَرَہ، اللّٰہُ تعالی
24جماد الاول1441ھ بمطابق22دسمبر 2019ء
                 دار الافتاء انواریہ کراچی وملتان







دار الافتاءانواریہ
الاستفتاء#:34
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیاں کرام اس مسئلہ میں کہ مرنے والے کےتین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں جن میں سے ایک بیٹے کا انتقال والد کے مرنے سے پہلے ہی ہو گیا تھا اور اس کی اولاد بھی ہے اور اس کے علاوہ کوئی وارث موجود نہیں ہے۔مرنے والاجو کچھ چھوڑ کر گیا اس کی کل مالیت اٹھتر لاکھ(7800000)روپے ہے۔برائے مہربانی آپ سے یہ رہنمائی چاہئے کہ اس ترکہ کی تقسیم ان پانچوں میں کس طرح ہوگی اور ایک بیٹا جو انتقال کر گیا تھا اس کی اولاد کو کیا ملے گا قرآن وحدیث کی روشنی میں بتائیے کہ کس کو کتنا فیصد حصہ ملے گا اس بارے میں تفصیل سے تحریری جواب ارشاد فرما دیجئے۔                                                               سائل:عبدا لقادر کراچی
الجواب:
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین
رب اغفروارحم وانت خیر الراحمین وافوض امری الی اللہ
ان اللہ بصیر بالعباد
 اس بارے میں تفصیل سے جواب حاضر ہے:اس مسئلہ میں جو اولاد والدین کے انتقال سے پہلے ہی فوت ہوجائےتو اس فوت شدہ اولاد اور اس کی اولاد یعنی پوتا پوتی کو دادا کی وراثت سے کچھ بھی نہیں ملے گا ۔آپ نے چونکہ وارثوں میں فقط بیٹے  اوربیٹیوں کا ذکر کیا ہے جبکہ دوسرے وارثوں کے نہ ہونے کا۔لہٰذا  اس میں شریعت نے زندہ بیٹے کا حصہ بیٹی سے دوگنا رکھا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ قران میں ارشاد فرماتا ہے:وَ اِنۡ کَانُوۡۤا اِخْوَۃً رِّجَالًا وَّ نِسَآءً فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ(النساء:76)ترجمۂ انوارالبرھان:اوراگراسطرح بھائی بہن ہوں کہ مرد بھی اور عورتیں بھی تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہےء. لہٰذا بیٹے کو دوگنا اور بیٹی کو ایک گنا حصہ ملے گا۔
اب چونکہ آپ کی رقم اٹھترلاکھ(7800000) روپے ہے اس لئے اس کو 6 حصوں میں تقسیم کر دیجئے اس کے بعدہر بیٹے کو دو  دو  حصے دیدیجئے اور ہر بیٹی کو ایک ایک حصہ دےدیجئے بآسانی آپ کی وراثت تقسیم ہو جائے گی۔
            مثلا:آپ کی کل رقم اٹھترلاکھ(7800000) ہے تو سب سے پہلے آپ اس کو 6حصوں میں تقسیم کریں :
            7800000 ÷ 6 = فی حصہ   1300000    یعنی تیرالاکھ روپے بنتی ہے۔
ہر ایک بھائی کا حصہ        :2600000  چھبیس لاکھ                  ہرایک بہن کا حصہ          :1300000 لاکھ بنے گا۔اللہ ورسولہ اعلم

كتبه             
  المتخصص فی الفقہ
عاجز ابو الانوار ڈاکٹر ذوالفقار علی قریشی غَفَرَہ، اللّٰہُ تعالی
27جماد الاول1441ھ بمطابق25دسمبر 2019ء
                 دار الافتاء انواریہ کراچی وملتان






دار الافتاءانواریہ
الاستفتاء#:35
أرجو منكم التفضل بشرح هذا الحديث بالتفصيل: روى أحمد وأبو داود عن معاذ : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : " عمران بيت المقدس خراب يثرب ، وخراب يثرب خروج الملحمة ، وخروج الملحمة فتح القسطنطينية ، وفتح القسطنطينية خروج الدجال " .
                                                                                                                                                                        سائل:عبدالقدوس من اہل العرب
الجواب:
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین
رب اغفروارحم وانت خیر الراحمین وافوض امری الی اللہ
ان اللہ بصیر بالعباد
الحديث رواه ابن أبي شيبة ( 7 / 491 ) وأحمد ( 5 / 245 ) وأبو داود ( 4294 ) وعلي بن الجعد في مسنده ( ص 489 )۔انا حرّرتُ بالتفصیل ھذا الحدیثَ فی کتابی"علامات القیامۃ و تحقیق احادیث غزوۃ الھند"وانظر (ای کلک علی ھذا اللنک)
https://www.scribd.com/document/440505381/Alamaat-e-Qayamat-or-Ghazwa-e-Hind-by-Dr-zulfiqar-Ali-Quraishi#from_embed
كلهم : من طريق عبد الرحمن بن ثابت بن ثوبان عن أبيه عن مكحول عن جبير بن نفير عن مالك بن يخامر عن معاذ بن جبل .
ورواه أبو عمرو الداني في " السنن الواردة في الفتن " ( 4 / 930 ) من طريق ابن ثوبان عن أبيه أنه سمع مكحولا يقول : حدثني مالك بن يخامر عن معاذ بن جبل قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم .

قال الدارقطني – وسئل عن الحديث - :
يرويه ابن ثوبان ، واختلف عنه : فرواه أبو حيوة شريح بن يزيد عن ابن ثوبان عن أبيه عن مكحول قال حدثني مالك بن يخامر عن معاذ ، وخالفه علي بن الجعد فرواه عن ابن ثوبان عن أبيه عن مكحول عن جبير بن نفير عن مالك بن يخامر عن معاذ ، زاد في الإسناد جبيراً ، والله أعلم .
"
علل الدارقطني " ( 6 / 53 )

أن كُلّ وَاحِد مِنْ هَذِهِ الْأُمُور أَمَارَة لِوُقُوعِ مَا بَعْده ، وَإِنْ وَقَعَ هُنَاكَ فترة زمنية بينهما .
( عُمْرَان بَيْت الْمَقْدِس ) أَيْ : عِمَارَته بِكَثْرَةِ الرِّجَال وَالْعَقَار وَالْمَال .
 
(خَرَاب يَثْرِب ) : أَيْ : سَبَب خَرَاب الْمَدِينَة . وَقَالَ الْقَارِي : أَيْ وَقْت خَرَاب الْمَدِينَة .
ويحتمل أن يكون المراد بعمارة بيت المقدس نزول الخلافة فيه في آخر الزمان . ويدل عليه ما رواه أبو داود (2535) عن عبد الله بن حَوَالة الأزدي ، قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم لنغنم على أقدامنا فرجعنا ، فلم نغنم شيئا ، وعرف الجهد في وجوهنا ، فقام فينا فقال: (اللهم لا تكلهم إليّ فأضعف عنهم ، ولا تكلهم إلى أنفسهم فيعجزوا عنها ، ولا تكلهم إلى الناس فيستأثروا عليهم) ثم وضع يده على رأسي أو قال: على هامتي ، ثم قال: (يا ابن حوالة ، إذا رأيت الخلافة قد نزلت أرض المقدسة فقد دنت الزلازل والبلابل [البلابل: الهموم والأحزان] والأمور العظام ، والساعة يومئذ أقرب من الناس من يدي هذه من رأسك) . صحيح أبي داود . فظاهره أن نزول الخلافة في الأرض المقدسة سيكون قريبا جداً من الساعة ، فقد يكون هذا هو المراد بعمارتها . والله أعلم .
( وَخَرَاب يَثْرِب خُرُوج الْمَلْحَمَة ) : أَيْ ظُهُور الْحَرْب الْعَظِيمة ، وتكون بَيْن أَهْل الشَّام وَالرُّوم .
(وَخُرُوجُ الْمَلْحَمَةِ فَتْحُ قُسْطَنْطِينِيَّةَ) يعني : فإذا خرجت الملحمة فبعدها فتح القسطنطينية .
(وَفَتْحُ الْقُسْطَنْطِينِيَّةِ خُرُوجُ الدَّجَّالِ) يعني إذا فتحت القسطنطينية خرج الدجال .
وفي الحديث إشكال ؛ وهو كون خراب المدينة قبل الدجال ، مع ما ورد من أن الدجال يمنع من دخول المدينة ، فإنها ترجف بأهلها ثلاث رجفات فيخرج إليه كل منافق ومنافقة .
وقد أجاب ابن كثير عن هذا الإشكال فقال في "النهاية" (1/94)
"
وليس المراد أن المدينة تخرب بالكلية قبل خروج الدجال ، وإنما ذلك آخر الزمان ، بل تكون عمارة بيت المقدس سببا في خراب المدينة النبوية ، فإنه قد ثبت في الأحاديث الصحيحة أن الدجال لا يقدر على دخولها ،  يُمنع من ذلك بما على أبوابها من الملائكة القائمين بأيدهم السيوف المصلتة" انتهى .
اللہ ورسولہ اعلم

كتبه             
  المتخصص فی الفقہ
عاجز ابو الانوار ڈاکٹر ذوالفقار علی قریشی غَفَرَہ، اللّٰہُ تعالی
30ذوالقعدہ1441ھ بمطابق22جولائی2020ء
                 دار الافتاء انواریہ کراچی وملتان





No comments:

Post a Comment